23 اور 24 مئی کی درمیانی شب سوا بارہ بجے سینکڑوں افراد نے سیالکوٹ شہر میں جماعت احمدیہ کی قدیمی عبادت گاہ اور اس سے ملحقہ مکان پر حملہ کر کے مسمار کر دیا۔
شہری انتظامیہ ، پولیس کے ضلعی افسران اور میڈیا کے نمائندگان موقع پر موجود تھے جبکہ انتہا پسند مذہبی جماعتوں کے انگیخت کرنے پر رات گئے احمدیہ املاک پر دھاوا بول دیا گیا۔
انتظامیہ خود پر اس ظلم کا الزام لینے کی بجائے اور ملائیت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر پر امن شہریوں کی املاک منہدم کرنے جیسی گھناونی کارروائی کو ایک قانونی کارروائی قرار دے رہی ہے اور اس حملے کو غیر قانونی تعمیرات گرانے کا اقدام گردانا جا رہا ہے۔
یہ امر ملحوظ رہے کہ جس تعمیر کو سٹی کونسل کی طرف سے غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے وہ عمارات سو سال سے زیادہ عرصہ قبل تعمیر ہوئی تھیں۔
بانی جماعت احمدیہ مرزا غلام احمد اپنے سیالکوٹ کے قیام کے زمانے میں اسی مکان میں رہائش رکھتے اور اسی مسجد مبارک میں نمازیں پڑھتے تھے۔
گزشتہ برس جماعت احمدیہ نے اس رہائش گاہ کی قدیم طرز تعمیر کے مطابق تزئین و مرمت بھی کی تھی اور احمدیہ جماعت کے لئے یہ عمارتیں تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔
جہاں تک ان کو سٹی کونسل کی طرف سے اس عمارت کو غیر قانونی تعمیر “قرار” دینے کا تعلق ہے تو اس کی کوئی قانونی بنیاد نہیں ہے اور نہ ہی اس ضمن کسی عدالت یا متعلقہ ادارے سے کوئی قانونی حکم نامہ دکھایا گیا ہے۔
ملک کے سیاسی اور سماجی طور پہ مخدوش تناظر میں یہ نئی پیش رفت اب اپنے دامن میں کیا کچھ لئے ہوئے ہے، میڈیا اور ملک کے لئے ابھی یہ دیکھنا باقی ہے، البتہ ملکی میڈیا کی اس واقعے پہ خاموشی قابل مذمت ہے۔
No comments:
Post a Comment