ابھی کچھ عرصہ قبل ہی حمزہ علی عباسی نے میڈیا کے ذریعے ایک بحث اٹھائی کہ کیا احمدیوں کو انسان سمجھنا چاہئے؟ اسکے خلاف ایک طوفان برپا ہوگیا۔ کہا گیا کہ طے شدہ امور کو چھیڑا جارہا ہے۔ عوامی جذبات کو انگیخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ملک کے امن و امان سے کھیلا جارہا ہے۔ گویا احمدی نہ ہوئے بارود کا ڈھیر ہوگئے جسے ایک بنیادی انسانی حقوق کے سوال سے بھی آگ لگ جائے گی جس میں گویا ملک جل سکتا ہے۔ گویا یہ طے شدہ امر ہے کہ احمدی انسان تو ہیں مگر انہیں انسانوں والے حقوق حاصل نہیں ۔مذہبی آزادی کا سوال تو بہت آگے کی بات ہے۔ حیف ہے ان دلیلوں پر۔ اول تو یہ طے شدہ مسئلہ کیسے ہوگیا؟ اور اگر ہوگیا تو یہ کس منطق کا اصول ہے کہ اگر کوئی مسئلہ طے شدہ ہو تو اس پر مزید بات نہیں ہوسکتی؟ اور پھر اگر بات ہی کرلی جائے تو ملک میں آگ کیوں لگ جائے؟ اور اگر لگ جائے تو قصور احمدیوں کا ہوگا یا آگ لگانے والوں کا؟ مگر ہمارے ملک میں ان سب سوالوں پر توپابندی ہے۔ اور اگر آزادی ہے تو آگ لگانے والوں کو آگ لگانے کی۔ ریاست نے اس موضوع پر جو حکمت عملی اپنائی وہ بظاہر کچھ یوں تھی کہ ایک فریق کے ہاتھ میں لاٹھی تھی اور ریاست اتنی کمزور کے نہتے کو لاٹھی والے سے بچا نہیں سکتی اس لئے کمزور اور نہتے کو لاٹھی والے سے بچانے کےلئے اسکے حق میں اٹھنے والی آواز کو بھی دبادیا گیا اور اس کے ساتھ ہی لاٹھی والوں یعنی احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز آوازوں کو بھی خاموش کروا دیا گیا۔ مگر اس حکمت عملی کو آپ کچھ بھی کہہ لیں اسے کوئی منصف مزاج انصاف نہیں کہہ سکتا۔ مگر انصاف تو وہاں ہوتا ہے جہاں ریاست کے پاس اقتدار ہو۔ جواقتدار کی لاٹھی ریاست کے پاس ہونی چاہئے اسے پہلے ہی آگ لگانے والوں کے حوالے کیا جاچکا ہے۔ اب آپ ایسے فیصلے کرکے ریاست کو مزید کمزور اور آگ لگانے والوں کی لاٹھی کو مزید قوت بخش رہے ہیں۔ انصاف کا خون کرنے سے معاملہ وقتی طور پر بھلے دب جائے مگر وہ عملاً ریاست کو جتنا کمزور کرتا ہے اتنا ہی لاٹھی والوں کو طاقتور بنا دیاکرتاہے۔ خیر وقت گزر گیا۔ لیکن کیا واقعی مسئلہ حل ہوگیا؟
ہر سال کی طرح امسال ایک بار پھر 7ستمبر آگیا۔ وہ تاریخی دن جس دن ریاست نے اپنی اقتداری لاٹھی مقننہ کے ذریعے مذہب کا سرٹیفکیٹ باٹنے والوں کے حوالے کردی تھی ۔ بالکل اسی طرح جیسےایک آرمی چیف اپنی ریٹائرمنٹ پر اپنی لاٹھی نئے مقررکردہ آرمی چیف کو دیتا ہے۔ گویا ریاست نے یہ زبان حال سے تسلیم کرلیا کہ جنکے ہاتھ میں لاٹھی ہے بھینس بھی انہیں کی ہوگی۔ جسے وہ غیر مسلم قرار دیں گے اسے ریاست بھی غیر مسلم قرار دے گی۔ اور پھر ہمارے ملک میں ریاست کے اقتدار کا سورج غروب ہوا اور تکفیر سازی کی اک نئی صبح کا طلوع ہوا۔ جس نے فرقہ وارایت کو نئی جہتیں عطا کیں اور معاشرے میں امن و سکون کو غارت کیا۔دہشت گردی کو مذہب کا لبادہ اوڑھا کر اسے مقدس جہاد قرار دے دیا گیا۔ احمدیوں سے پاکستان میں مخالفین کا سلوک ابتدا سے ہی بھیڑیےاور بھیڑ کے بچے والے مشہور قصے والا رہا ہے۔ اب کی بار ایک بار پھراس بھیڑیےنے سر عام میڈیا پر بھیڑ کے بچے کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر تمہارے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہے تو اس میں سراسر تمہارا اپنا قصور ہے۔ اور جو چیر پھاڑ تمہاری کی جارہی ہے وہ عین انصاف ہے ۔کیونکہ تمہارا قصور یہ ہے کہ تم اقلیت ہو اور ہمارے مخالف ہو۔ بھیڑ کے بچے کی
طرح کمزور ہو اور ہم نے اپنی بھوک مٹانی ہے۔ ہم اکثریت میں ہیں اس لئے طاقتور ہیں۔لہٰذا ہمارا یہ ‘جمہوری ’حق ہے کہ تمہیں کھا جائیں۔اور یہ سب اسی آزادی اظہار رائےکے نام پر کیا گیا جو احمدیوں کے لئے تو شجر ممنوعہ ہے مگر ان مذہبی جبہ پوشوں کے لئے مادرپدر آزاد ہے۔ اور اسی میڈیا پر کیا گیا جس کے احمدیوں کا موقف پیش کرنے پر تو پر جلتے ہیں مگر احمدیوں کے خلاف جیسی چاہے نفرت پھیلا لو یہی صحافتی مقدس اقدار ٹھہرتی ہیں۔ خواہ کسی کا خون کرنا ہی مقدس قرار دیا جارہا ہو۔
ریاست جو ابھی چند ماہ قبل احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کےلئے ایک خفیف سی آواز اٹھنے پر اس طرح حرکت میں آئی گویا ایک خوابیدہ شیرجاگا ہو، اب خاموش بیٹھی یوں اونگھ رہی ہے گویا وہ یہاں موجود ہی نہیں ہے۔ شاید اس لئے کہ جب احمدیوں کے حق میں کوئی آواز اٹھے تو ریاست کا اقتدار جوش میں آتا ہے۔ اور امن و امان کا نام لے کر انہیں طے شدہ امور قراردے دیا جاتا ہے۔ مگر جب معاملہ احمدیوں کے خلاف نفرت انگیزی کا ہو تو گویا ابھی سب کچھ طے ہونا باقی ہے۔ رہا اقتدار تو وہ احمدیوں کے خلاف بولنے پر گویا عملاً خداکو منتقل کردیا جاتا ہے۔لہٰذا احمدی جانیں اور خدا جانے۔اور احمدی بھی لگتا ہے آئین کے کچھ زیادہ ہی پابند ہیں جنہوں نے یہ تسلیم کررکھا ہے کہ اقتدار اعلیٰ واقعی خدا کے ہاتھ میں ہی ہے۔ اسی لئے تو وہ اپنے سر کو جسے ریاست کے سامنے اٹھانا چاہئے اسے وہ خدا کے آگے ہی جھکائے رکھتے ہیں۔
اور پھر ہر سال ملاں کو اسی ریاست میں7 ستمبر کا یہ یادگار دن منانے کی بھی مادر پدر آزادی حاصل ہے۔ جس دن جشن تو احمدیوں کے خلاف فتح کا منایا جاتا ہے مگر عملاً یہ جشن مذہب کے نام پر ریاست سےاقتدار چھیننے اور اسے اپنا غلام بنانے کا ہے۔ 14اگست کی آزادی ہماری ریاست نے 7ستمبر کو پلیٹ میں رکھ کر اس طبقے کو کو پیش کردی جو مذہب کو اپنی ملکیت قرار دے کر اسکے کاپی رائٹس ریاست میں رجسٹر کروانا چاہتا تھا۔اور یہ طبقہ وہی تھا جس نے قیام پاکستان سے قبل اسی آزادی کی بھرپور مخالفت بھی کی تھی۔ یہ مطالبہ مان کر ریاست نے اول تو مذہب کو محکوم بنایا جس پر وہ جو چاہیں فیصلہ دے سکتے ہیں۔ اور پھر اسی مذہب پر ایک خاص طبقے کی اجارہ داری تسلیم کرتے ہوئے ریاست نے درحقیقت اپنا اقتدار ان مذہب کے نام لیواؤں کو دے دیا۔ جنہوں نے سب سے پہلے اسی قائد عوام کا خون کروایا جس نے یہ اقتدار انکے حوالے کیا تھا۔اب ہماری ریاست انکے آگے بے بس ہے۔ انکی غلام ہے۔ دیکھو اب کب ریاست کواقتدار واپس ملتا ہے اور ہم دوبارہ کب آزاد ہوتے ہیں۔ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔
No comments:
Post a Comment